کہاں بن پائے اس جیسی کسی عطار سے خوشبو |
کشیدہ ہو جو نورِ ربِ عنبر بار سے خوشبو |
وہ یکتائے دو عالم رکھی تھی محبوب کی خاطر |
"جو آتی تھی وجودِ اطہرِ سرکار سے خوشبو" |
معطر خوشبوؤں سے عرشِ اعظم ہوگیا ہوگا |
وہاں جب پھیلی ہوگی زلفِ طرح دار سے خوشبو |
خیالِ عنبریں گزرے ادھر جو شہرِ طیبہ کا |
محیطِ روح و جاں ہو حلقہءِ انوار سے خوشبو |
مرا جانا مقدر ہو زمینِ نور و رحمت پر |
کہ بھر کے دامنِ دل لا سکوں سرکار سے خوشبو |
تری امت ہیں دعویدار ہیں، پندار سے پر ہیں |
بہت بہتر ہے آئے کام اور کردار سے خشبو |
بہ فیضِ حمد ونعت و مدحتِ سرکار، دنیا میں |
قلم سے روشنی پھوٹے ہے اور افکار سے خوشبو |
عجب راہِ تصوف ہے،غضب اس کے جھمیلے،پر |
امڈتی آئے راہرو کے لیے ہر خار سے خوشبو |
مدینے سے نجف پھر آ گئی بغداد،اب صوفی |
یہاں بھی ملتی ہے اک قادری دربار سے خوشبو |
صمیم صوفی فیصل آباد |
معلومات