| قدرت مجھے اڑنے کو دوچار جو پر دیتی |
| ان کو بھی شقی دنیا قینچی سے کتر دیتی |
| قسمت، جو مجھے بخشے کچھ خواب محل ، تو نے |
| پھر ان کو امیدوں کے، دروازہ و در دیتی |
| تقدیر نے بخشی تھی گر مجھکو سخن گوئی |
| تخئیل کو پروازیں اور سوچ کو پر دیتی |
| غالب سی نہیں، لیکن، تھوڑی سی سخن سنجی |
| قسمت نہ مجھے دیتی، اتنی تو مگر دیتی |
| پتھر ہی بنایا تھا، تقدیر نے گر دل کو |
| احساس کی دولت کیوں؟ آذر سا ہنر دیتی |
| اجڑی ہوئی بستی کا ماحول کھنک اٹھتا |
| قسمت جو کوئی اس میں ہنستا ہوا گھر دیتی |
| ناشکرا حبیب آخر ناشکری ہی دکھلاتا |
| بےشک اسے یہ قدرت سب شمس و قمر دیتی |
معلومات