میری وحشت مرا جہاں کوئی |
میرے دل کو نہیں اماں کوئی |
دل میں کیا ہے کیا کوئی سمجھے |
کاش سمجھے نہ کچھ یہاں کوئی |
اُن کی وحشت سے دل یہ زنده ہے |
قلبِ عریاں میں ہے نہاں کوئی |
دردِ دل کی دوا میسّر ہو |
گر بنا ہے خدا یہاں کوئی |
حال دل کا یہاں کہوں کس کو |
اہلِ دل ہیں نہ یاں بتاں کوئی |
یوں تو ہر دم ہجوم گھیرے تھا |
پھر بھی تنہا رہا وہاں کوئی |
نیشِ مژگاں جو دل میں ہے پیوست |
یعنی هر دم ہے زخم نواں کوئی |
ہاے بے کاریِ دل آفت ہے |
گو ہو آشفتہ بے کراں کوئی |
صدمۂ عشق کا *اثر* یہ ہوا |
ہے جگر خون دل فغاں کوئی |
معلومات