پوچھتے نہیں کبھی، کیا ہمیں سنانا ہے
پاسداری ہے الگ، زیرِ لب فَسانہ ہے
لب ​بمُہر خوفِ آزاری سے کیے ہیں اب
سمھجو! آبلہ دہن صرف اک بہانہ ہے
فکرِ روزگار بیگانہ کیوں بنا دیا
عاشقی کا ہم سے عرصے کا دوستانہ ہے
دیکھی ہم نے اُنکی مِثلِ وفا شعاری کیا؟
خامشی جواب ہے، جُہلِ عارفانہ ہے
حق بیانی پچھڑی چربہ زبانی سے یہاں
کیسا ہے خَلائے اقدار کیا زمانہ ہے
انساں کیا ہے، عقدہِ ہستی اور زماں ہے کیا؟
صرف لفظ بدلے، قصہ وہی پرانا ہے
کرنا ہے طے تم نے دُستورِ زندگی اگر
تجربہ کسوٹی ہے، جس پے آزمانہ ہے
کوئی فکر و ذکرِ کردار اور خلوص ہو
زر و زن کا رونا یاں روز اور شبانہ ہے
ہے مفر عمل سے، خو گر ہیں سیلِ جوش کے
سر بکف کو بار تعظیمِ پنجگانہ ہے
رُخ جہاں بھی ہو، ہے رُوئے سخن اُسی طرف
ساز ہے نیا مہِؔر، سوز تو پرانا ہے
----------٭٭٭---------

0
168