سوار سب ہیں مسافر ، سبھی کو چلنا ہے
نہ جانے کون سی منزل پہ جا اترنا ہے
سمجھ میں آ گیا ، ہیں کس قماش کے کچھ لوگ
بھلا اسی میں ہے ، ان سے تو دور رہنا ہے
کہاں ہے وقت الجھتے رہیں یوں آپس میں
بس ان سے دوستی کا کیا حساب کرنا ہے
نہ جانے لوگ ، رکھیں ان سے واسطہ کیونکر
انہوں نے زندگی میں جن کی زہر بھرنا ہے
خموش رہنا ہے عادت مری ، نہ اُکساؤ
جواب دوں یہ کہ اک روز سب نے مرنا ہے
ہیں ٹانگ کھینچتے ، کچھ لوگ ان کی ہے عادت
حسد کی آگ میں ، ان کا تو کام جلنا ہے
ہمیں تو چلتے چلے جانا ہے دعا کے ساتھ
ہمیں نگاہ میں رب کی اگر سنورنا ہے
مزاج اپنا بھی ٹھنڈا رکھیں ذرا طارق
صدائے سگ سے فقیروں کا رزق بڑھنا ہے

0
11