غمزدہ غمزدہ میری عمرِ رواں
شش جہت ہیں سنیں میری آہ و فغاں
درد چہرے پہ، تر آنکھ، دل غمزدہ
پابز نجیر ہوں جسم ہے ناتواں
سر زنش یوں کہ جیون بناغم کدہ
اور میسر رہے نا سمجھ ہم عناں
جگ ہنسائی ہوئی اور اپنوں نے کی
میرے قلب حزیں پر ہیں زخم زیاں
میں یو نہی یاس سے انکو تکتا رہا
پھول مرجھا گئے آئی باد خزاں
نو چا توصیف کا کرگسوں نے بدن
اب زمیں پر پڑا ہے فقط استخواں

0
5