اُلفتِ اوّل کا منظر شاز تھا |
بر زُباں انکار، رُخ غمّاز تھا |
وہ چھُپا لیتا تھا سارے جذبوں کو |
خوب کیا وہ چہرہ دھوکے باز تھا |
کوئی بَر نامہ ہو، طے ہو وقت بھی |
حادثًا مِلنا بھی کیا انداز تھا؟ |
شمعِ محفل بن وہ جاتا تھا سدا |
خودنُمائی سے ہمیں اِعراض تھا |
مشغلہ تھا تار دل کے چھیڑنا |
دوسروں جیسا میں بھی اک ساز تھا |
تھے الگ ہم اس قدر تُو پوچھ مت |
اجتماع اضداد اک اعجاز تھا |
دور کر دیتا تھا سارے واہمے |
مِؔہر ایسا وہ کرشمہ ساز تھا |
-----------***---------- |
معلومات