اُلفتِ اوّل کا منظر شاز تھا
بر زُباں انکار، رُخ غمّاز تھا
وہ چھُپا لیتا تھا سارے جذبوں کو
خوب کیا وہ چہرہ دھوکے باز تھا
کوئی بَر نامہ ہو، طے ہو وقت بھی
حادثًا مِلنا بھی کیا انداز تھا؟
شمعِ محفل بن وہ جاتا تھا سدا
خودنُمائی سے ہمیں اِعراض تھا
مشغلہ تھا تار دل کے چھیڑنا
دوسروں جیسا میں بھی اک ساز تھا
تھے الگ ہم اس قدر تُو پوچھ مت
اجتماع اضداد اک اعجاز تھا
دور کر دیتا تھا سارے واہمے
مِؔہر ایسا وہ کرشمہ ساز تھا
-----------***----------

0
92