امکانِ خرقِ ادا، ممکن ہی نہیں
اندیشہِ ترکِ وفا ممکن ہی نہیں
لمحات سبھی وصل کے ہیں تِہ نشیں یاں
زائل ہوں کبھی نقشِ پا، ممکن ہی نہیں
ممکن ہی نہیں خلاصیِ مشقِ ستم
نسیانِ جورِ جفا، ممکن ہی نہیں
گر ترکِ تعلق کا ارادہ ہو کیا
باقی رہے رنگِ حنا، ممکن ہی نہیں
دستورِ محبت ہُوا یکطرفہ مِؔہر
اُلفت کا ملے گا صلہ، ممکن ہی نہیں
-------------٭٭٭-------------

1
82
شاہ صاحب توجہ و پسندیدگی
کے لیے ممنون ہوں

سدا خوش رہیں
عدنان مغل

0