خیرہ آنکھوں کو کریں حسن وہ رخسار و دہن
ہوش سے کر دے جو بیگانہ تھی مہکارِ بدن
خود خدا نے وہ تراشا تھا صنم ایسا حسیں
میں چلا جاتا تھا کرتے ہوئے دیدار مگن
سبز کپڑوں میں وہ ملبوس تھی وادی مخمل
جن میں گاتے ہوئے چلتی ندی کہسار دمن
دن دہاڑے جو لُٹا ہوں تو بتاؤں اتنا
رہن رکھ آیا دل و جان میں اس کے آنگن
آئی تھی اس کو جلانے کے لئے بادِ سموم
لوٹ کے پھر سے بہار آئی کُھلا صحنِ چمن
کس نے انڈیلا تھا ایندھن مرے دروازے پر
آگ کس کس نے لگائی جو ہوا شعلہ فگن
لگ گئی کس کی نظر جانے نہ انجانے میں
یوں لگا بر سرِ پیکار ہوئے ہیں دشمن
پھر سے محفل ہوئی آباد لگی رونق ہے
آکے دیکھے تو سہی آج کوئی اس کی پھبن
دیں ملائک جو نہ دستک ترے دل پر آکر
یونہی باتوں سے تو پیدا نہ ہوں شہکار سُخن

0
13