ہمارے نام بھی کوئی سنہری شام ہو جائے
کہیں ایسا نہ ہو یہ زندگی ناکام ہو جائے
ہمیں ساقی سے پھر ایسی شکایت کیا ، سفارش کیا
نگاہوں ہی نگاہوں میں اگر اک جام ہو جائے
نگاہِ لطف ہو جائے اگر ، بیمار اچھا ہو
مسیحا کو منائیں گے ، اگر وہ رام ہو جائے
محبّت میں ، ہماری ہی ، کمی شاید رہی ہو گی
محبّت کیوں کسی کے سامنے نیلام ہو جائے
کوئی اک آدھ ظالم تو نظر آتا ہے گلیوں میں
مگر یہ کیا کہ سارا شہر خوں آشام ہو جائے
دعا دی اس لئے قاتل کو ہم نے تا دمِ آخر
ہمیں اچھا نہیں لگتا کہ وہ بدنام ہو جائے
کسی سے پیار کرنے کو ہماری دشمنی سمجھا
ہمارا ذکر جب آئے ، زباں دشنام ہو جائے
ہمیں ملنے سے کترائے ، کوئی تو مصلحت ہو گی
عدُو ڈرتا نہ ہو ایسی خبر تو عام ہو جائے
خوشی اُس کی ہمیں اِس زندگی سے بڑھ کے پیاری ہے
ہے خواہش ، جان دینے سے ، اسے آرام ہو جائے
خرَد کے سامنے شرمندگی ہو گی محبّت کو
جنوں کیا جو مطیعِ قدغنِ احکام ہو جائے
مداوا فرقتوں کا ہو ملے جو وصل کا موسم
بہاروں سے خزاؤں کا اگر انجام ہو جائے
ہمیں طارقؔ وہ ٹھہرانے کی مجرم جب کریں کوشش
تو ثابت بے وفائی کا ، غلط ، الزام ہو جائے

0
11