چلا تھا جس جگہ سے پھر وہیں پر آ گیا ہے دل |
اب اس دنیا کے چکّر سے بہت اُکتا گیا ہے دل |
جہاں میں تو ازل سے ہی غلط سمجھا گیا ہے دل |
ہمیشہ عقل کی میزان پر پرکھا گیا ہے دل |
کبھی وارا کبھی توڑا کبھی لوٹا گیا ہے دل |
بتاؤں کیا، تمھیں کیا کیا ستم سہتا گیا ہے دل |
تری محفل میں جانِ جاں مرا پگلا گیا ہے دل |
حجاب اُٹھنا ترا، توبہ کہ حشر اٹھا گیا ہے دل |
خداوندا بچا، یہ اب کہاں الجھا گیا ہے دل |
وہ میری جان کا دشمن ہے جس پر آ گیا ہے دل |
یہاں ہے دینِ احمد اور وہاں دنیا کی ہے لذّت |
اِدھر کھینچا گیا ہے دل اُدھر اڑتا گیا ہے دل |
ہزاروں مسجدیں ویراں پڑی ہیں اس زمانے میں |
حیاتؔ اب میکدے سے اُٹھ بہت بہکا گیا ہے دل |
معلومات