مضمون کوئی کیسے سرِ خامہ آئے گا
سوچا تو ذہن میں کوئی افسانہ آئے گا
جو آپ نے لکھا وہ پسند آئے یا نہ آئے
تعریف میں کوئی نہ کوئی نامہ آئے گا
آنے سے آپ کے بھی جو رونق نہیں ہوئی
محفل میں اور کیا کوئی ہنگامہ آئے گا
دنیا بھلائے گر تو بھلا دو اسے بھی تم
سالوں کے بعد ہی کوئی مہ نامہ آئے گا
خاموش شہر چپکے سے بتلائے گر سنو
اپنا یہاں نہ کوئی نہ بیگانہ آئے گا
اب تک چھپے رہے ہو تو گمنام تو نہیں
دنیا کے سامنے تو خبر نامہ آئے گا
جذبات اشتعال میں آتے ہیں جلد اب
قانون تو برائے نقصِ عامّہ آئے گا
طارق تم اپنی فکر کرو کہہ رہے ہیں لوگ
پیچھے تمہارے اب کوئی علّامہ آئے گا

0
6