| نہ شک محبت پہ کرنا، مجھ پر یقین رکھنا |
| کھاؤ قسم، لو یہ وعدہ، مجھ پر یقین رکھنا |
| جتا سکوں نا بتا سکوں ہے بے حد محبت |
| لکھی ہیں غزلیں یہ پڑنا، مجھ پر یقین رکھنا |
| یقیں زباں پے نہ آئے تو، دل سے پوچھ لینا |
| پکارے گا نام تیرا، مجھ پر یقین رکھنا |
| ملے نہ ملتے ہیں لوگ سچی محبتوں میں |
| یہی سمجھ کے بچھڑنا، مجھ پر یقین رکھنا |
| میں اپنی منزل کو جا رہا ہوں، کبھی نہ ہو گا |
| ہمارا ملنا ملانا مجھ پر یقین رکھنا |
| کہے بنا ہی میں مر گیا، تم سے ہے محبت |
| اسے ملو تو یہ کہنا، مجھ پر یقین رکھنا |
| سنو مری قبر پر، مجھے ملنے آتے رہنا |
| ہمارا قائم ہے رشتہ، مجھ پر یقین رکھنا |
| گلابوں کی پتیاں لے آنا، کریں گی تسبیح |
| لحد پہ میری سجانا، مجھ پر یقین رکھنا |
| کبھی نہیں مرتا مرنے سے کوئی، مارنا ہو |
| تو یاد اس کو نہ کرنا، مجھ پر یقین رکھنا |
| سہی غلط کا سراغ، روشن چراغ تھا وہ |
| جو ہو سکا کر گیا تھا، مجھ پر یقین رکھنا |
| کُھلیں گے مرنے کے بعد، دنیا پہ راز میرے |
| چھپائے تھے، میں نے اچھا، مجھ پر یقین رکھنا |
| یقیں محبت کا تھا، یوں اس کو خدا کا جیسے |
| یہ تختی میری لگانا، مجھ پر یقین رکھنا |
| بچھڑ گیا ہے اگر یہ تم سے، تمہارا سرمد |
| رہا نہ تھا کوئی رستہ، مجھ پر یقین رکھنا |
معلومات