آگ کی طرح تن بدن کھا گیا
مجھ کو میرا ہی خالی پن کھا گیا
دیکھ لو کوئی ہجر کا پت جھڑ
کیسے خوابوں کا اک چمن کھا گیا
میں نہ ہونے کے حال میں تھا مگر
مجھ کو ہونے کا بانکپن کھا گیا
دل کو جس فن پہ تھا بھروسہ بہت
دل کو بربادی کا وہ فن کھا گیا
کام کا ایک آدمی تھا یہاں
اس کو بھی کارِ ما و من کھا گیا
درد نے زیست کا بڑھایا ہے حسن
درد ہر پل کا اک چلن کھا گیا
ناز تھا جس گماں پہ ہم کو بہت
وہ یقینوں کا پیرہن کھا گیا
وقت بہتا رہا خموشی کے ساتھ
پر خلا زندگی کا بن گھا گیا

65