کیا کہوں صحرا نوردی یا نشاطِ جُستجو
چھلنی کر دیتی ہے مفلس کی مچلتی آرزو
خواب میں آنے کا وعدہ کر لیا اس نے مگر
نہ کسی وعدے کی خواہش ہے نہ کوئی جستجو
کیا کِیا کالج میں جا کر کیا ملا محنت کا پھل
کاش اس ڈگری کی بھی ہوتی کہیں تو آبرو
سب سے اچھّی خوبصورت ہے مری ارضِ وطن
رہنما سارق ہیں جھوٹے ہیں لٹیرے فتنہ جُو
تیری چاہت سے بھی بڑھکر اور مجھ کو کام ہیں
بھوک بیماری غریبی مفلسی بہتا لہو
خواہشیں قربان کر دیں زندہ رہنے کے لئے
آج بھی زندہ ہوں لیکن زندگی کی آرزو
کل جنہیں ٹھکرا دیا ہم نے سمجھ کے راہگیر
اب انہیں کو ڈھونڈتے ہیں قریہ قریہ کو بکو
شاید اس دنیا میں ہے ناپید امن و آشتی
ڈھونڈتا ہوں یم بہ یم دریا بہ دریا جُو بہ جُو
اب طہارت کے لئے لازم نہیں پانی امید
زندگی کی تلخیوں سے روز کرتا ہوں وضو

0
61