مغ بچوں! لاؤ یہاں کھینچ کے دستار کے ساتھ
باندھ دو شیخ کو میخانے کی دیوار کے ساتھ
ضعف میں چاہیے اک نیند کی گولی شب کو
صبح اک چائے کا کپ چاہیے اخبار کے ساتھ
بد سلوکی کا کریں آپ کی ہم کس سے گلہ
کون لڑ پائے گا شیرینیِ گفتار کے ساتھ
یوسفِ مصر کا بِکنے کو نہ تھا حسن و جمال
ہو لیا حیف! زمانہ بھی خریدار کے ساتھ
محفلِ یار میں کیوں خوفِ رقیباں کھائیں
ہُوا جھگڑا بھی تو ہم لڑ لیں گے دو چار کے ساتھ
نا شکیبائی نے اِس دل کی بہت خوار کیا
ورنہ کچھ ربط نہ رکھتے تھے ہم اظہار کے ساتھ
سخت سفّاک و ستمگر ہیں طبیبانِ شہر
ہے انہیں مفت عداوت ترے بیمار کے ساتھ
تھور لا ٹھونستے ہیں منہ میں مرے کہہ کے دوا
چارہ کرتے ہیں معالج مرا کس پیار کے ساتھ
تا دمِ زیست سلامت رہے سودائے جنوں
آخرش دفن ہوں ہم کاش! اسی آزار کے ساتھ
کیوں نہ غرّا ہو مجھے اپنی زباں دانی کا
کون جچتا ہے برابر مرے معیار کے ساتھ
ایک اک قافیہ لایا ہوں میں تنہاؔ تنہاؔ
کیا برا ہے جو تخلّص کہوں تکرار کے ساتھ

0
138