میں ماں کو کیا جواب دوں میں ماں کو کیا جواب دوں
کوئی تو گھر میں ہے شجر کسی قدم میں ہے سفر
کسی کا رخ شمال کو کوئی جنوب کو گیا
کوئی جہاں سے ہم چلے تھے ہے وہیں رکا ہوا
تو کوئی وقت کو بھی پیچھے چھوڑ کر نکل گیا
کسی کا پاؤں دیر میں کوئی حرم میں جا پھنسا
کوئی ہے تارکِ وطن تو کوئی تارکِ خدا
میں ماں کو کیا جواب دوں میں ماں کو کیا جواب دوں
چلے تھے ہاتھ تھام کر قدم قدم سے تھا ملا
خلوص کا تھا کافلہ محبتوں کا سلسلہ
ہر ایک جاں نثار تھا ہر ایک سے ہی پیار تھا
نہ کوئی غم سفر کا تھا صعوبتوں سے ڈر نہ تھا
چلے تھے سینہ تان کر فخر سے سر بھی تھا اٹھا
نجانے سب کو کیا ہوا سمجھ نہیں کوئی سکا
لگی کسی کی بد نظر یا قسمتوں میں تھا لکھا
چلی انا کی بارشیں حلوص اس میں بہہ گیا
کوئی کہیں پہ رہ گیا کوئی کہیں پہ رہ گیا
الگ الگ ہیں منزلیں جدا جدا ہے راستہ
انہیں نہیں کوئی گلہ مجھے نہیں کوئی گلہ
اے ماں تمہاری قلفتوں کا یہ صلہ تمہیں ملا
سوال سب سے ہے مرا یہ کیوں ہوا یہ کیوں ہوا
وہ کون لوگ تھے محبتوں کی جو مثال تھے
غموں میں مشکلوں میں ایک دوسرے کی ڈھال تھے
ہر ایک اونچ نیچ میں ہمیشہ ہم خیال تھے
مجھ سے ماں کے خواب میں فقط یہی سوال تھے
میں ماں کو کیا جواب دوں میں ماں کو کیا جواب دوں
ماں مجھے تو معاف کر ماں تو سب کو معاف کر

0
41