جہاں میں ہم کہیں رہیں ہماری آب و تاب ہو |
ہمارے ساتھ جب چمن میں کِھل رہا گلاب ہو |
محبّتوں کی سرزمیں میں روشنی ہو ہر جگہ |
کہیں وہ آفتاب ہو کہیں وہ ماہ تاب ہو |
ملیں ہمیں رفاقتیں محبّتیں عنایتیں |
کتاب حکمتوں سے پُر ہو پیار جس کا باب ہو |
کہانیاں سنی تھیں ہم نے ہجر کی وصال کی |
یہاں تو اس کا عشق ہی ہمارا انتخاب ہو |
ہیں آشیاں اجڑ گئے کہ پنچھیوں نے راہ لی |
مرے وطن کی ہر گلی میں یوں لگے عذاب ہو |
ستم رسیدہ سب ہوئے ہیں کام کیا کرے کوئی |
کہ ہجرتوں کے واسطے قطار میں شباب ہو |
پڑھا تھا تم نے جو سبق مروّتوں وفاؤں کا |
کہیں اسے بھلا کے یہ نہ زندگی خراب ہو |
خدا کرے کہ پھر سے تم کو راحتیں نصیب ہوں |
تمہیں ہدایتیں ملیں جو رہنما کتاب ہو |
طبیب وہ ملے تمہیں جو درد کی دوا کرے |
وہ زخم مندمل کرے تمہارا ہم رکاب ہو |
سوال اس سے کیا کریں سنیں وہ جو کہا کرے |
تو اس کے ہر جواب پر کہیں کہ لا جواب ہو |
چلے بھی آؤ میکدے تمہارے غم بھی دور ہوں |
پلا رہا جو حوض پر حَسین اک شراب ہو |
ہے طارق اب تو خوش ہوا سُنا تو سجدے میں گرا |
ہے جب سے اس نے کہہ دیا تمہارا کیا حساب ہو |
معلومات