زندگی تیرے امتحان میں ہیں
جو سفر ٹوٹے بادبان میں ہیں
ہیں جواں حوصلے مثال کے سب
پر کٹا کے بھی ہم اڑان میں ہیں
بھولی ہیں کچھ پتے محبتیں پر
ہم مکیں اب بھی اس مکان میں ہیں
کھا کے چوٹیں یوں الفتوں کی مگر
آج بھی ان کے درمیان میں ہیں
ڈوب کے روز ان کی آنکھوں میں ہم
خوبصورت اسی جہان میں ہیں
آرزو یار کی ہے زندہ ابھی
گو غمِ اشک کی مچان میں ہیں
آبلہ پا ہیں منزلیں شاہد
پھر بھی خوش اپنے ہم گمان میں ہیں

0
60