ہر فجور و فسق کے لیے دوا حسین ہے
آج بھی یذیدیت کا مسئلہ حسین ہے
جس کی قوس میں سبھی اصول مرگ و زیست ہیں
آ دکھاوں تجھ کو ایسا دائرا حسین ہے
مجھ کو رہزنی کا کوئی خوف پھر نہیں رہا
جب سے کہہ دیا ہے میرا رہنما حسین ہے
ایک ہی سدا ہے اب حسین یا حسین بس
سر کٹا کے بھی یہاں پہ بولتا حسین ہے
ایک سلسلہ ہے جو فدا بہ نام یار ہے
ابتدا ذبیح تھے تو انتہا حسین ہے
کس کی یہ مجال جو کہے کہ میں حسین ہوں
دوسراخدا نہیں نہ دوسرا حسین ہے
ان کی معرفت پہ جاں اعجاز کی نثار ہو
کہہ گئے ہیں جو بنائے لا الہ حسین ہے
اعجاز احمد روانہ

0
115