مِرا اک نیا مَیں جہاں چاہتا ہوں
سکوں چاہتا ہوں، اماں چاہتا ہوں
تبسم شگُوفوں، گُلوں پر نچھاور
بہاریں ہو ایسا سماں چاہتا ہوں
نہیں مڑ کے ہرگز مجھے دیکھنا ہے
فتوحات کا کہکشاں چاہتا ہوں
چبھن سنگ ریزوں کی آڑے نہ آئے
ہو منزل نشیں، کارواں چاہتا ہوں
وفا تجھ سے ناصؔر تو ایثار چاہے
مگر میں دلِ بے کراں چاہتا ہوں

0
50