ڈھونڈنے گر لگو تو کیا نہیں ملتا
ہاں، مگر، پھر بھی من چاہا نہیں ملتا
ہے میسر اسے قیمت نہیں، اک ہم
جس سے وہ ایک بھی لمحہ نہیں ملتا
جو بھی لپٹا تری نازک سی بانہوں میں
پھر وہ بندہ کبھی زندہ نہیں ملتا
عشق کو چاہیے خونِ جگر دھڑکن
سب کو یہ مفت میں تحفہ نہیں ملتا
کس کی تقدیر میں آئے تری زُلفیں
عشق میں سب کو یہ درجہ نہیں ملتا
تجربوں سے یہ سیکھا ہے سبق میں نے
راہِ رب میں کبھی دھوکہ نہیں ملتا
زین، اُمید پر قائم ہے دنیا، پر
صبر کا پھل یہاں اچھا نہیں ملتا

12