| غزل |
| درماندگی میں آنکھ ملا تے کہاں ہیں لوگ |
| دلی چیر کر کسی کو دکھاتے کہاں ہیں لوگ |
| اے منکرِ جزا و سزا یہ ذرا بتا |
| یاں زندگی گزار کے جاتے کہاں ہیں لوگ |
| تقدیر پر ہی رکھتا ہے الزام ہر کوئی |
| اپنے کئے پہ اشک بہاتے کہاں ہیں لوگ |
| بس منتظر ہیں اُس کی عنایت کے صبح و شام |
| اپنے نصیب آپ بناتے کہاں ہیں لوگ |
| دنیا کی بے وفائی کے شکوے زبان پر |
| قول و قرار اپنے نبھاتے کہاں ہیں لوگ |
| اوروں کو وعظ و پند و نصیحت مگر خود آپ |
| راہِ طلب میں جان کھپاتے کہاں ہیں لوگ |
| ٹکرا گئے جو لشکرِ فرعونٍ وقت سے |
| مر کر بھی بزمِ ہستی سے جاتے کہاں ہیں لوگ |
| جاوید جن کو نور بصیرت ہو ا عطا |
| بے جا ضرورتوں کو بڑھاتے کہاں ہیں لوگ |
| ( رحمت اللہ جاوید ) |
معلومات