مرے سنگ سنگ نباہ کر، مرا انگ انگ تباہ کر
مرا جسم جسم نچوڑ دے، مری روح روح گناہ کر
شبِ وصل روک نہ جسم کو، شبِ وصل ٹوک نہ جسم کو
ہے جنوں لباس لباس میں، ذرا دیکھ دیکھ نگاہ کر
تجھے کیا سے کیا نہ دِکھا دیا، تجھے کیا سے کیا نہ تھما دیا
میں لذیذ ذائقہ ذائقہ، تجھے فائدہ مجھے بیاہ کر
مری شام شام ترے لیے، مرا جام جام ترے لیے
تری دسترس میں نفس نفس، مری جنس جنس کی خواہ کر
اُتر آ حدود حدود میں، اُتر آ وجود وجود میں
میں جواں حسین حسین ہوں، مجھے گاہ گاہ گواہ کر
ہے بھنور خمار خمار میں، ہے ضرر قرار قرار میں
یہ مزہ مزاح کہیں نہیں، ملے لطف نطفہ کراہ کر
مرا سیم سیم بدن بدن، مجھے نیم نیم چبھن چبھن
مرا تن سفید سفید ہے، مری زلف زلف سیاہ کر
مجھے تنہاؔ تنہاؔ نہ چھوڑنا، مجھے بھینچ بھینچ مروڑنا
مری سانس سانس سے جوڑنا، میں جدا جدا نہ ہوں چاہ کر

0
195