وہ آئے گی کسی دن پھر مجھے کیوں ہے یقیں آخر
وہ رہزن تو نہیں دل کی ، یہاں کی ہے مکیں آخر
چمکتا چاند سا چہرہ ، خماری اُس کے گیسو میں
کیا تھا قتل آنکھوں نے بنے خاکِ نشیں آخر
کوئی تو بات ہے اُس میں ، کوئی منتر تو پڑھتی ہے
زمانہ یوں نہیں قدموں میں اُس کے ہم نشیں آخر
وصالِ یار ہو مجھ کو وہ میرے پاس بیٹھی ہو
سنواروں زلف جاناں کو ہو لمحہ دل نشیں آخر
ہوئے ہم بھی فدا ان پر ، لٹایا مال و زر اپنا
سحر دن بھر عبادت کی ، جھکائی پھر جبیں آخر

0
93