میں راہِ ہجرِ رواں کو سنوار آیا ہوں |
میں سوزِ فُرقتِ جاناں گزار آیا ہوں |
گزشتہ رات اُس کا قتل مجھ پہ واجب تھا |
سو اپنے دل میں میں خنجر اُتار آیا ہوں |
وہ ڈھونڈتا پھرے گا قبر میری سارا دن |
میں اپنی قبر سے کتبہ اتار آیا ہوں |
وہ کھیل جس میں ضروری تھا جیتنا اس کا |
میں جان بوجھ کے وہ کھیل ہار آیا ہوں |
وہ میرے ڈوبنے کی منتیں اٹھاتا تھا |
میں جس کے آسرے دریا کے پار آیا ہوں |
وہ غم کو بیچ کے خوشیاں خرید لیتا تھا |
میں اس کے سر سے سبھی خوشیاں وار آیا ہوں |
میں سر بچانے کا قائل نہیں محبت میں |
میں خوں کا آخری قطرہ بھی ہار آیا ہوں |
تم اپنے حصے کی خوشیاں سنبھال کے رکھو |
ضمیر اپنے میں حصے کا مار آیا ہوں |
جنہیں گلاب کی فرقت اُداس رکھتی تھی |
میں چن کے سارے وہی خامؔ خار آیا ہوں |
معلومات