میں راہِ ہجرِ رواں کو سنوار آیا ہوں
میں سوزِ فُرقتِ جاناں گزار آیا ہوں
گزشتہ رات اُس کا قتل مجھ پہ واجب تھا
سو اپنے دل میں میں خنجر اُتار آیا ہوں
وہ ڈھونڈتا پھرے گا قبر میری سارا دن
میں اپنی قبر سے کتبہ اتار آیا ہوں
وہ کھیل جس میں ضروری تھا جیتنا اس کا
میں جان بوجھ کے وہ کھیل ہار آیا ہوں
وہ میرے ڈوبنے کی منتیں اٹھاتا تھا
میں جس کے آسرے دریا کے پار آیا ہوں
وہ غم کو بیچ کے خوشیاں خرید لیتا تھا
میں اس کے سر سے سبھی خوشیاں وار آیا ہوں
میں سر بچانے کا قائل نہیں محبت میں
میں خوں کا آخری قطرہ بھی ہار آیا ہوں
تم اپنے حصے کی خوشیاں سنبھال کے رکھو
ضمیر اپنے میں حصے کا مار آیا ہوں
جنہیں گلاب کی فرقت اُداس رکھتی تھی
میں چن کے سارے وہی خامؔ خار آیا ہوں

1
92
وہ ڈھونڈتا پھرے گا قبر میری سارا دن
میں اپنی قبر سے کتبہ اتار آیا ہوں