حقیقت جان کے بھی خواب دیکھے ہیں
اندھیری نگری میں مہتاب دیکھے ہیں
اسی دریا کنارے میں بھی رہتا ہوں
مری آنکھوں نے بھی سیلاب دیکھے ہیں
خزاں کی رُت میں بھی دل دشت میں ہر سوں
اُمیدوں کے شجر شاداب دیکھے ہیں
کسی بھی طور دل لگتا نہیں میرا
سبھی اس شہر کے آداب دیکھے ہیں
مسافر ہوں مگر رستے میں اکثر میں
خود اپنی ذات کے گرداب دیکھے ہیں
خود اپنے آپ سے بھی دور ہوں اتنا
کہ خود سے ملنے کے بھی خواب دیکھے ہیں

44