حقیقت جان کے بھی خواب دیکھے ہیں |
اندھیری نگری میں مہتاب دیکھے ہیں |
اسی دریا کنارے میں بھی رہتا ہوں |
مری آنکھوں نے بھی سیلاب دیکھے ہیں |
خزاں کی رُت میں بھی دل دشت میں ہر سوں |
اُمیدوں کے شجر شاداب دیکھے ہیں |
کسی بھی طور دل لگتا نہیں میرا |
سبھی اس شہر کے آداب دیکھے ہیں |
مسافر ہوں مگر رستے میں اکثر میں |
خود اپنی ذات کے گرداب دیکھے ہیں |
خود اپنے آپ سے بھی دور ہوں اتنا |
کہ خود سے ملنے کے بھی خواب دیکھے ہیں |
معلومات