بزم کو یار نے جِلا دی ہے
دردِ دل کی بڑی دوا دی ہے
تجربہ ہم کو درس دیتا ہے
"عشق تاریکیوں کا عادی ہے"
چرچہ ہر سمت اُس کا کیوں نہ چلے
زندگی قوم پر مٹا دی ہے
وہ نہ قائل صنم کو کر پائے
پھر بُری ہی خبر سنا دی ہے
نیکیوں کا صلہ ملا ناصؔر
کچھ تو نادار نے دعا دی ہے

47