| سدا ساتھی وہ جیون کے جو میرے ہم سفر نکلے |
| بکھرتا دیکھ کر مجھ کو ادھر نکلے ادھر نکلے |
| اسے دل میں بسایا زندگی بھر کیلئے میں نے |
| مگر میری تو ہستی کے یہ لمحے مختصر نکلے |
| مجھے تیری جدائی کے مرض نے اس طرح گھیرا |
| جہاں بھر کی دواؤں کے اثر بھی بے اثر نکلے |
| ہمیں یہ بے گھری گھر کی طرح معلوم ہوتی ہے |
| تری زلفوں میں ہم جو ڈھونڈنے اپنا نگر نکلے |
| جلا کر خط محبت کے جہاں تک بس چلا ان کا |
| زمانے کے مظالم سب وہ مجھ پر کر گزر نکلے |
| اسے شاید غریبوں پر ذرا سا ترس آ جائے |
| گدائی کا لبادہ اوڑھ ہم شام و سحر نکلے |
| نہ کر برباد مستقبل تمہیں وہ چھوڑ جائے گی |
| نجومی کے بتائے سب حوالے معتبر نکلے |
| میں قسمت کے ستاروں کا گلہ کیسے کروں حامی |
| مری ناؤ کا ہر سو سامنا کرنے بھنور نکلے |
معلومات