سدا ساتھی وہ جیون کے جو میرے ہم سفر نکلے
بکھرتا دیکھ کر مجھ کو ادھر نکلے ادھر نکلے
اسے دل میں بسایا زندگی بھر کیلئے میں نے
مگر میری تو ہستی کے یہ لمحے مختصر نکلے
مجھے تیری جدائی کے مرض نے اس طرح گھیرا
جہاں بھر کی دواؤں کے اثر بھی بے اثر نکلے
ہمیں یہ بے گھری گھر کی طرح معلوم ہوتی ہے
تری زلفوں میں ہم جو ڈھونڈنے اپنا نگر نکلے
جلا کر خط محبت کے جہاں تک بس چلا ان کا
زمانے کے مظالم سب وہ مجھ پر کر گزر نکلے
اسے شاید غریبوں پر ذرا سا ترس آ جائے
گدائی کا لبادہ اوڑھ ہم شام و سحر نکلے
نہ کر برباد مستقبل تمہیں وہ چھوڑ جائے گی
نجومی کے بتائے سب حوالے معتبر نکلے
میں قسمت کے ستاروں کا گلہ کیسے کروں حامی
مری ناؤ کا ہر سو سامنا کرنے بھنور نکلے

78