یہ شوقِ دروں تھا مدینے چلوں گا
جبیں کوچہ جاں میں کبھی میں رکھوں گا
مقابل جو ہو گا حسیں روضہ ان کا
سلامِ عقیدت انہیں جا کروں گا
وہ داتا دہر کے میں ادنیٰ سوالی
یہ جھولی عطائے نبی سے بھروں گا
ہیں آقا دہر کے مدینے کے والی
ہوں عاجز درود ان پہ میں جا پڑھوں گا
نظر میں جو ہوں گی حسیں جالیاں تب
میں مدحت نبی کی دلوں سے سنوں گا
نہ قابل ہوں اس کے دکھاؤں یہ چہرہ
کئے نظریں نیچی میں آہیں بھروں گا
لیے شوق دل میں چلا جا رہا ہوں
کہ موتی کرم کے حرم میں چنوں گا
درِ پاک سے ہے بلاوا جو آیا
پڑا سوچ میں تھا یہ مژدہ سنوں گا
شکر تجھ پہ واجب ہے محمود عاصی
میں عرضی جو تیری سخی سے کروں گا

109