آرزوِ سحر میں رات بتائی میں نے
شمع کئی بار جلا کے بجھائی میں نے
جب بھی خیالِ رقیباں نے کیا بے کل مجھے
دشتِ تخیل کو آواز لگائی میں نے
لوٹی پریشاں سی میری صدا کی بازگشت
اپنی کہانی یو ں خود کو ہی سنائی میں نے
میری یہ افلاس پھر سے نہ لے ڈوبے مجھے
حالتِ دامن دریدہ تھی چھپائی میں نے
خون جگر سے کیا آباد سخن دانی کو
شاعری تو دیکھ محفل کیا سجائی میں نے
برلبِ ساغر پہ تھی تشنگی جو خیمہ زن
اشکو ں سے دل خستہ کی پیاس بجھائی میں نے

105