آج چہچہاتے ہیں کل مگر نہیں ہوں گے |
آشنا سے یہ چہرے بام پر نہیں ہوں گے |
دل پہ ڈال کر ڈھاکہ چُھپ کے بیٹھ جاتے ہیں |
جا کے دیکھ لیں لیکن، لوگ گھر نہیں ہوں گے |
پی کے ہم بہکتے تھے چھوڑ دی ہے اب یارو |
کھائی ہے قسم ہم نے، ہونٹ تر نہیں ہوں گے |
اُس کے من پسندوں میں ہم اگر نہیں شامل |
جان بھی لُٹا دیں تو معتبر نہیں ہوں گے |
نا ہؤا میسّر گر ساتھ آپ کا تو پھر |
چند گام رستے بھی مختصر نہیں ہوں گے |
ہم سے لاج چاہت کی، آبرو محبّت کی |
ناز کون اُٹھائے گا، ہم اگر نہیں ہوں گے |
مشورہ دیا تم کو، قیمتی ہیں یہ الفاظ |
گر عمل کرو گے تو، بے اثر نہیں ہوں گے |
رہبری کے پردے میں راج رہزنوں کا ہے |
آج ہم نہیں یا پِھر، راہبر نہیں ہوں گے |
درد وہ مِلا حسرتؔ جاں بچانے کے حربے |
جتنے آزماؤ گے، کارگر نہیں ہوں گے |
رشید حسرتؔ |
ا |
معلومات