آج چہچہاتے ہیں کل مگر نہیں ہوں گے
آشنا سے یہ چہرے بام پر نہیں ہوں گے
دل پہ ڈال کر ڈھاکہ چُھپ کے بیٹھ جاتے ہیں
جا کے دیکھ لیں لیکن، لوگ گھر نہیں ہوں گے
پی کے ہم بہکتے تھے چھوڑ دی ہے اب یارو
کھائی ہے قسم ہم نے، ہونٹ تر نہیں ہوں گے
اُس کے من پسندوں میں ہم اگر نہیں شامل
جان بھی لُٹا دیں تو معتبر نہیں ہوں گے
نا ہؤا میسّر گر ساتھ آپ کا تو پھر
چند گام رستے بھی مختصر نہیں ہوں گے
ہم سے لاج چاہت کی، آبرو محبّت کی
ناز کون اُٹھائے گا، ہم اگر نہیں ہوں گے
مشورہ دیا تم کو، قیمتی ہیں یہ الفاظ
گر عمل کرو گے تو، بے اثر نہیں ہوں گے
رہبری کے پردے میں راج رہزنوں کا ہے
آج ہم نہیں یا پِھر، راہبر نہیں ہوں گے
درد وہ مِلا حسرتؔ جاں بچانے کے حربے
جتنے آزماؤ گے، کارگر نہیں ہوں گے
رشید حسرتؔ
ا

0
187