بیچ دیواریں تھیں ایسی کاٹتی تھیں رابطہ
جب سے دیواریں گریں اب بڑھ گیا ہے فاصلہ
جرس کی آواز سے کٹنے لگا ہے دل مرا
وہ ابھی آیا نہیں اور چل دیا ہے قافلہ
سوچتے ہو اس سے ان کا حق ادا ہو جائے گا
دے کے ان کو دال روٹی سر چھپانے کی جگہ
جان لیوا خامشی ہے اور بے چینی بہت
رونما ہونے کو ہے کوئی نیا اب حادثہ
میں وہ بنتا جا رہا ہوں جو مری منزل نہیں
میں ٹھٹھک کر رہ گیا دیکھا جو میں نے آئینہ
لاش کو میری گھسیٹا شاہ نے شمشان تک
خون سے میں نے بچھایا احمری سا راستہ
موسمِ طوق و سلاسل جبر و استبداد ہے
ڈھول کی آواز پر آیا نیا اک ضابطہ
اب تو ہجرت ہی مقدر ہوں وطن سے دربدر
سانس گھٹتا ہے فضا میں کوچ کا ہے فیصلہ
اے خدا تیرے جہاں انصاف کا فقدان ہے
میرا قاتل میرا منصف یہ ہے تیرا فلسفہ
میرے بچوں کا مقدر جس ملک سے منسوب ہے
اس کی حالت دیکھ کر دل پر پڑا ہے آبلہ
ہم نے کیا پایا یہاں کس جرم کی ہے یہ سزا
اپنی مٹی میں ہمیں ہی نہ ملی دو گز جگہ

0
54