| چوٹ گہری نہ ہو سسکی نہیں آیا کرتی |
| کاغذی پھول پہ تتلی نہیں آیا کرتی |
| دوسروں کے لئے خود کو جو فنا کرتے ہیں |
| لب پہ ان کے کبھی شیخی نہیں آیا کرتی |
| کچھ سبب لازمی رہتا ہے الجھ جانے کا |
| یوں مگر بے وجہ تلخی نہیں آیا کرتی |
| عزم ہو پختہ ہمارے، ہو لگن بھی کامل |
| ورنہ کچھ کام میں چستی نہیں آیا کرتی |
| پیار کے بول ہو ناصؔر جو زباں پر جاری |
| رشتوں میں اپنے بھی دوری نہیں آیا کرتی |
معلومات