جو نفرت کو مٹاتا ہے اسے استاد کہتے ہیں
محبت جو سکھاتا ہے اسے استاد کہتے ہیں
کہ پڑھ لینا ، سنا دینا ہنر سب کا ہے اے لوگو
جو ذہن و دل پہ چھاتا ہے اسے استاد کہتے ہیں
قلم سے تخت چھینیں یا کہ تقدیریں بنا ڈالیں
جو دنیا کو ہلاتا ہے اسے استاد کہتے ہیں
جو تاریکی میں راہوں کو اجالے بانٹ دیتا ہے
دلوں میں نور لاتا ہے اسے استاد کہتے ہیں
گزارو زندگی تم یوں بہت سے لوگ کہتے ہیں
سلیقہ جو سکھاتا ہے اسے استاد کہتے ہیں
جسے ازبر کوئی شے ہو اسے ماہر سمجھتے ہیں
جو ماہر کر دکھاتا ہے اسے استاد کہتے ہیں
وہ سب بھی محترم ہیں جو سبق اچھا پڑھاتے ہیں
مگر جو دل جلاتا ہے اسے استاد کہتے ہیں
جو خواہش کے اندھیروں میں امیدوں کا دیا رکھ دے
وہ جو منزل سجاتا ہے اسے استاد کہتے ہیں
جو شب کے سرد لمحوں میں چراغِ صبح رکھ جاۓ
جو سورج بن کے آتا ہے اسے استاد کہتے ہیں
جو لفظوں میں چھپا مفہوم گوہر کی طرح کھولے
جو خود جاں تک لٹاتا ہے اسے استاد کہتے ہیں
جو خالی ہاتھ آتا ہے مگر سب کچھ لٹاتا ہے
جو سب کچھ دے کہ جاتا ہے اسے استاد کہتے ہیں
خضر بن کے جو راہوں کا یقیں دل میں جگا جاۓ
کنارے جو دکھاتا ہے اسے استاد کہتے ہیں
تھا وہ گمنام سا شاعر کہ ہادیؔ نام ہے جسکا
وہ جس سے فیض پاتا ہے اسے استاد کہتے ہیں

35