کیوں کر ہو کسی بات کا غم دستِ رضا میں
تاحشر ہمارا ہے بھرم دست رضا میں
۔
الفاظ سے اب نعت کی بکھریں گی شعاعیں
آئے ورق و شمع و قلم دست رضا میں
۔
فنِ سخن آرائی کہ تخریج کا ہو فن
ہر فن میں امامت کا علم دست رضا میں
۔
دامانِ رضا کی مرے ہاتھوں میں کڑی ہے
دامانِ شہنشاہِ امم دستِ رضا میں
۔
یہ فیضِ شہنشاہِ مدینہ ہے کہ ہیں سب
اہلِ عرب و اہلِ عجم دستِ رضا میں
۔
باغانِ بہشت اب ہیں مقدر کہ مدثر!
پکڑائے ہوئے ہاتھ ہیں ہم دستِ رضا میں

0
6