کوئی سپنوں میں آنے لگ گیا ہے
مری نیندیں چرانے لگ گیا ہے
ہوا ہوں جب سے میں اس سے شناسا
مزہ جینے میں آنے لگ گیا ہے
نظر آیا ہے جب سے اس کا جلوہ
مرا دل بھی ٹھکانے لگ گیا ہے
کبھی اس نے جو کر لی بات مجھ سے
یہ دل تو گنگنانے لگ گیا ہے
میں دل کی بات کیا اس کو بتاتا
وہ خود میری بتانے لگ گیا ہے
اکیلے میں جو یاد آ جائے اس کی
وہ چپکے سے ہنسانے لگ گیا ہے
یقیں میری محبّت کا ہے اس کو
تبھی تو آزمانے لگ گیا ہے
تعلّق اُس سے طارق کا ہوا ہے
جبھی وہ مُسکرانے لگ گیا ہے

1
40
پسندیدگی کا شکریہ ثمینہ رفیق صاحبہ

0