چھوٹی چھوٹی باتوں پر کسمسانا چھوڑ دے
زِندگی جینی ہے تو روٹھ جانا چھوڑ دے
ہر فسانہ جھوٹ ہے ہر زمانہ دھوکہ ہے
آتی جاتی رت سے دل! دل لگانا چھوڑ دے
اندھوں کے اس شہر میں سن کسی کو کیا خبر
تو بھی اپنے آپ سے منھ چھپانا چھوڑ دے
مجھ سے سب کچھ چھین لے یادیں رہنے دے مگر
زندہ رہنے کے لئے اِک بہانہ چھوڑ دے
تلملانا چھوڑ دے مسکرانا چھوڑ دے
دشت میں رہنا ہے تو گل مچانا چھوڑ دے
یہ سمندر وہ نہیں، یہ وہ ساحل بھی نہیں
ان ہواؤں کو اے دل آزمانا چھوڑ دے
کچھ نہیں اس دشت میں یہ فقط اک وہم ہے
ریت پر بچوں کی طرح دل بنانا چھوڑ دے

0
34