جو اندیشے تھے سب حقیقت ہو گئے
یاروں کے لیے ہمی مصیبت ہو گئے
کانوں میں جو رس گھولا کرتے تھے کبھی
میٹھے بول اب حرف ِ ملامت ہو گئے
اخلاقیات کا جنازہ ہو چکا
اب لہجے قیامت کی علامت ہو گءے
جرنیل و ملاں باطل کوفی ہو گئے
حق پر تو جی اہل سیاست ہو گئے
اس چھینا جھپٹی کے زمانہ میں تو جی
قصہ کہا نی اہل صباحت ہو گئے
دستور بھی کافر کہے جن کو ان کے
چہرے اور بھی ہاں خوب صورت ہو گئے
نفرت کے الاءو جو جل رہے ہیں
مومِن کے لیے باعث ہجرت ہو گئے
اہلِ وفا تو جانتے ہیں سچ یہ ہے
خوش بخت وہ جو صاحبِ بیعت ہو گئے
جس نے جگ میں ظلم کیا حشر کے دن
سب کام اس کے کارِ ندامت ہو گئے
کل شیخ نے بچھا ئے تھے جو خار حسن
سب ہی کے لیے باعثِ زحمت ہو گئے

0
60