کہ کرنا کیا ہے کیا کرنا نہیں ہے
یہ میں نے اب تلک سوچا نہیں ہے
نظر بیمار میری ہو چکی ہے
ہوئی مدت تمہیں دیکھا نہیں ہے
کچھ ایسے لوگ دل میں بس چکے ہیں
کہ جن سے ربط ہے رشتہ نہیں ہے
جو دریا سوچ کر میں چل رہا ہوں
وہ صحرا ہے کوئی دریا نہیں ہے
مجھی سے ہے تعصب وقت کو بھی
کبھی میرے لیے ٹھہرا نہیں ہے
سخن تیرا تو یوں لگتا ہے جیسے
نشہ مے کا ابھی اترا نہیں ہے
جو نفرت دل میں رکھتا ہے ہمیشہ
کبھی دل وہ یہاں مہکا نہیں ہے
میں اپنا درد رکھتا ہوں چھپا کر
کوئی مجھ کو یہاں سنتا نہیں ہے
ہوئی رخصت ہے ماں اب جو کہ گھر سے
کوئی رستہ مرا تکتا نہیں ہے
شہادت کا بسا جس میں ہو جزبہ
یہاں کوئی وہ دل رکھتا نہیں ہے
بھلا دے رب کو جو عشقِ بتاں میں
کبھی اس کو سکوں ملتا نہیں ہے
یقیں کامل ہے جس کا رب پہ احسنؔ
وہ تنہا ہو کے بھی تنہا نہیں ہے

0
7