ہم فریبِ حسن میں جو آ گئے
ان کے ہر وعدہ پہ دھوکا کھا گئے
ان کا ہر شب ہم نے دیکھا راستہ
وعدہ شکنی روز وہ دکھلا گئے
شب کو آنے کا ہے وعدہ روز کا
"ہم تو اس تکرار سے اکتا گئے"
ہیں شکستہ عہد میں وہ نام ور
کہ ستم پر بھی ستم ہیں ڈھا گئے
ہے وجودِ کُل ذکیؔ دہکا ہوا
آتشِ فرقت وہ یوں بھڑکا گئے

0
56