ہم فریبِ حسن میں جو آ گئے |
ان کے ہر وعدہ پہ دھوکا کھا گئے |
ان کا ہر شب ہم نے دیکھا راستہ |
وعدہ شکنی روز وہ دکھلا گئے |
شب کو آنے کا ہے وعدہ روز کا |
"ہم تو اس تکرار سے اکتا گئے" |
ہیں شکستہ عہد میں وہ نام ور |
کہ ستم پر بھی ستم ہیں ڈھا گئے |
ہے وجودِ کُل ذکیؔ دہکا ہوا |
آتشِ فرقت وہ یوں بھڑکا گئے |
معلومات