مرے دل میں بسی ہے آج بھی وہ شامِ غم
ٹوٹ کر بہہ گیا آنکھوں سے تبھی جامِ غم
حرفِ تسکین ہوا میں ہی بکھر کر رہ گیا
اب صبا دے کے مجھے جاتی ہے پیغامِ غم
کچھ عجب خواب تھے دل نے جو سنبھالے ہوئے تھے
وقت نے دل پہ لکھا ہے وہی انجامِ غم
بجھتی یادوں کے دیے آنکھوں میں جلتے رہے
یاد کی راکھ میں جلتا رہا اک نامِ غم
اب بھی خاموش سلگتی ہیں یہ ٹھنڈی راتیں
اب بھی رو رو کے گزرتے ہیں یہ ایامِ غم

0
4
68
غمِ دل آج بھی رستا ہے وہی شامِ غم
==کیا مخاطب "شامِ غم" ہے ؟ تو اُس کو یہ کیا بتانا کہ دل میں غم ہے وہ تو غم ہی کی شام ہے - اگر شام غم اضافی صفت ہے کہ شام غم میں غمِ دل رستا ہے تو جملہ مبہم ہے -

==ٹوٹ کر بہہ گیا آنکھوں سے سبھی جامِ غم
سبھی جامِ غم نہیں آئے گا - جامِ غم واحد ہے سبھی جمع کے لیئے ہوتا ہے

حرفِ تسکین ہوا میں ہی بکھر کر رہ گیا
اب ہوا دے کے مجھے جاتی ہے پیغامِ غم
== دونوں مصرعوں میں "ہوا" کا آنا شعر کو خراب کو رہا ہے -

کچھ عجب خواب تھے دل نے جو سنبھالے ہوئے تھے
وقت کی گرد سے دھندلا گئے انجامِ غم
== خواب سنبھالے تھے تو ان کی تعبیر دھندلا سکتی ہے - انجامِ غم کیسے دھندلا جائیگا -
== یہ محض لفاظی ہے -

بجھتی یادوں کے دیے آنکھوں میں جلتے رہے
پھول کانٹے بنے جاتے ہیں سرِ بامِ غم
== یہ چلے گا - مگر مصرع رواں نہیں ہے بہت لفظ گرائے جا رہے ہیں -

اب بھی خاموش سلگتی ہیں یہ ٹھنڈی راتیں
اب بھی زخمی ہے ہوا، زخم ہے گلفامِ غم
== گلفامِ غم محض قافیہ پیمائی ہے


0
تبدیلیاں کی ہیں ۔ اب بتائیے گا

0
بہت اچھی تبدیلیاں کی ہیں آپ نے - غزل نکھر گئی ہے -
اب آئندہ آپ غزل کی روانی پہ بھی توجہ دیا کریں - جب آپ کوئی حرف گرائیں تو دیکھ لیا کریں کہ اس سے روانی تو متاثر نہیں ہو رہی ہے - انشا اللہ اور بہتری آئے گی -


جزاک اللہ خیر

0