پیار کے بدلے جسے میں نے خدائی دی ہے
اسی ظالم نے مجھے آج جدائی دی ہے
پیار مجھ سے وہ وفادار عدو کا نکلا
مجھ کو تقدیر نے ہر چیز پرائی دی ہے
وہ ہی آنکھیں وہی زلفیں وہی کاکل وہی ہونٹ
وہ ہی تصویر پرانی سی دکھائی دی ہے
وہ جس آواز سے میں بھاگ رہا تھا برسوں
وہ ہی آواز دوبارہ سے سنائی دی ہے
عشق کی قید سے اب آزاد ہوا ہوں شاہدؔ
اس نے کیسی مجھے یہ آج رہائی دی ہے

87