دل میں ٹھہر جاتا وہ اگر تو بہت اچھا ہوتا
خالی نہ کرتا اپنا ہی گھر تو بہت اچھا ہوتا
ہوئی بچھڑنے کی بات آنسو نہ روکے آنکھوں نے
ہوتا نہ یونہی ذکرِ ہجر تو بہت اچھا ہوتا
ایسے ہیں اس کے شاید ازل سے ہی ہم تو اس کے تھے
ہوتی نہ یہ ہستی بے اثر تو بہت اچھا ہوتا
ہر آن میں ہی وہ شخص بالکل جدا تھا دنیا سے
ہوتا نہ مجھ پر اس کا اثر تو بہت اچھا ہوتا
لوٹا بے منزل جب وہ سفر سے کہا پھر یہ اس نے
اعجازؔ جو ہوتا ہم سفر تو بہت اچھا ہوتا

0
121