| دل میں ٹھہر جاتا وہ اگر تو بہت اچھا ہوتا |
| خالی نہ کرتا اپنا ہی گھر تو بہت اچھا ہوتا |
| ہوئی بچھڑنے کی بات آنسو نہ روکے آنکھوں نے |
| ہوتا نہ یونہی ذکرِ ہجر تو بہت اچھا ہوتا |
| ایسے ہیں اس کے شاید ازل سے ہی ہم تو اس کے تھے |
| ہوتی نہ یہ ہستی بے اثر تو بہت اچھا ہوتا |
| ہر آن میں ہی وہ شخص بالکل جدا تھا دنیا سے |
| ہوتا نہ مجھ پر اس کا اثر تو بہت اچھا ہوتا |
| لوٹا بے منزل جب وہ سفر سے کہا پھر یہ اس نے |
| اعجازؔ جو ہوتا ہم سفر تو بہت اچھا ہوتا |
معلومات