یاں پہ جذبوں کے خریدار نظر آتے ہیں
سبھی ہی مصر کے بازار نظر آتے ہیں
اُس کے ہاتھوں پہ جو آ جائیں وہ پتھر پھر تو
رشکِ افلاک وہ کہسار نظر آتے ہیں
اِن کے پہلو میں ہی ہوتا ہے وہ خالق لوگو
شہ کی تربت کے جو زوار نظر آتے ہیں
اوج تاروں کی بلندی پہ جا پہنچی اُس کی
جس کی آنکھوں کو وہ سرکار نظر آتے ہیں
میں نے دہلیزِ علی پاک کو چوما لوگو
اب مقدر مرے حبدار نظر آتے ہیں
جس جگہ دیکھ رہے ہو ربِ واحد تم سب
مجھ کو اُس جا تو یہ عمار نظر آتے ہیں
گو نظر آتے نہیں پاس تو ہر پل وہ ہیں
دل کی آنکھوں سے ہی سردار نظر آتے ہیں
ہے یقیں آنے کو ہیں وہ مرے دلبر شفقت
چار سو مجھ کو جو آثار نظر آتے ہیں

41