| یاں پہ جذبوں کے خریدار نظر آتے ہیں |
| سبھی ہی مصر کے بازار نظر آتے ہیں |
| اُس کے ہاتھوں پہ جو آ جائیں وہ پتھر پھر تو |
| رشکِ افلاک وہ کہسار نظر آتے ہیں |
| اِن کے پہلو میں ہی ہوتا ہے وہ خالق لوگو |
| شہ کی تربت کے جو زوار نظر آتے ہیں |
| اوج تاروں کی بلندی پہ جا پہنچی اُس کی |
| جس کی آنکھوں کو وہ سرکار نظر آتے ہیں |
| میں نے دہلیزِ علی پاک کو چوما لوگو |
| اب مقدر مرے حبدار نظر آتے ہیں |
| جس جگہ دیکھ رہے ہو ربِ واحد تم سب |
| مجھ کو اُس جا تو یہ عمار نظر آتے ہیں |
| گو نظر آتے نہیں پاس تو ہر پل وہ ہیں |
| دل کی آنکھوں سے ہی سردار نظر آتے ہیں |
| ہے یقیں آنے کو ہیں وہ مرے دلبر شفقت |
| چار سو مجھ کو جو آثار نظر آتے ہیں |
معلومات