انجانا سا اک خوف اتر کیوں نہیں جاتا |
جو دل میں ہے بیٹھا ہوا ڈر کیوں نہیں جاتا |
فرصت ہو اگر تم کو تو اتنا کبھی سوچو |
گھر اپنا ہو جس کا تو وہ گھر کیوں نہیں جاتا |
کٹتا نہ سفر ہو تو یہ سوچے گا مسافر |
منزل کا ہے رستہ تو اُدھر کیوں نہیں جاتا |
جو دیکھتا سنتا ہے وہی ان کا خدا ہے |
اس سمت خیال ان کا مگر کیوں نہیں جاتا |
دربار میں حاکم کے صدا دے کے تو دیکھے |
بندہ ہے اسی کا تو بشر کیوں نہیں جاتا |
بندوں نے تو در اپنے سبھی بند کئے ہیں |
جب اس نے کھلا رکھا ہے در کیوں نہیں جاتا |
ہیں داغ جو چہرے پہ چھپائے گا کہاں تک |
تاریخ ہے آئینہ سُدھر کیوں نہیں جاتا |
طارق کبھی مظلوم سے جیتا نہیں ظالم |
پر وقت کٹھن اب یہ گزر کیوں نہیں جاتا |
معلومات