| لگا ہے گھن دریچے بھی چٹختے ہیں |
| کبھی جھڑتے کبھی سر کو پٹختے ہیں |
| بڑا خستہ گھروندا تھا کنارے پر |
| سمندر میں گرے تنکے ابھرتے ہیں |
| جلا دے گی خزاں پھر سے بہاروں کو |
| اداسی سے جلے پتے لٹکتے ہیں |
| نگاہوں سے پلا دو تو سنبھل جائیں |
| شرابوں کی خماری سے بھٹکتے ہیں |
| کسی لمبے سفر پر میں چلا جیسے |
| دریچوں سے سبھی ہنستے نکلتے ہیں |
| کڑی دھوپوں تلے گزرے سفر خرم |
| بتاؤں تو شجر سن کے جھلستے ہیں |
| چھپا بیٹھا رہوں اب تو چراغوں سے |
| پتنگے پھڑپھڑاتے ہیں تڑپتے ہیں |
| ستاروں تک نظر اک حد تلک جائے |
| سنا تو ہے ستارے بھی بھڑکتے ہیں |
| سدھر جائیں جواری گر کدھر جائیں |
| جدھر جائیں ادھر شرطیں بدلتے ہیں |
| تجھے جیتا نہیں میں نے کبھی لیکن |
| تجھے ہارا نہیں یہ سب سمجھتے ہیں |
| سجا کے اجنبی محفل بلانا مت |
| تجھے ملنا اگر ہو تب نکلتے ہیں |
| خرم جواد |
معلومات