شہروں سے رفیقوں کے یہ پیغام ملے ہیں
جو لوگ تھے انمول وہ بے مول بکے ہیں
ملتے ہیں یاں عشاق کو پتھر کے جو تحفے
دیکھو یہ وفاؤں کو نبھانے کے صلے ہیں
ماں باپ نے الفت کا سبق جن کو پڑھایا
افسوس کہ اولاد یہ آپس میں لڑے ہیں
حاکم نے فقیروں پہ عجب ظلم ہے ڈھایا
دیکھو کہ وہ جھولی کو اٹھا کر کے چلے ہیں
شاید کوئی اپنا ہے جو اُس پار کھڑا ہے
کانٹے یہاں ترتیب سے راہوں میں پڑے ہیں
بھڑکے ہوئے شعلوں کو جو نفرت نے ہوا دی
جلتے ہیں کہیں گھر تو کہیں لوگ مرے ہیں
آؤ کہ تمہیں باغِ محبت میں دکھاؤں
حسانؔ کی غزلوں سے جہاں پھول کھلے ہیں

0
32