منصوبہ بندی کیسے ہے کرنا ہم نے سوچ لیا
ناکامی سے پُورے طور اُبھرنا ہم نے سوچ لیا
سمجھائش کا ان کے ہوا تھا اثر دل پر اتنا گہرا
دامن پر لگے سارے داغ مٹانا ہم نے سوچ لیا
گردِشِ دوراں ہو یا کچھ ہو موافق سے حالات کبھی
وعدوں کو اپنے ہر حال نبھانا ہم نے سوچ لیا
ذلت و رسوائی کے سوا رسموں میں ملتا کیا ہے یہاں
مفت کی الجھنوں سے پیچھا بھی چھڑانا ہم نے سوچ لیا
چاہے جتنے نعرے لگائے کوئی حجاب پہ حرج نہیں
دشمنوں کو تکبیر کے بل پہ ڈرانا ہم نے سوچ لیا
ہم صفیہؓ ہیں تو کبھی خنساؓ ہیں نہ ہمیں تم چھیڑئے گا
با پردہ با عصمت ہی جب رہنا ہم نے سوچ لیا
بیداری کی ہے یہ لہر ناصؔر تو کچھ ذرا ہوش رہے
اپنے حق کی خاطر بھی اب لڑنا ہم نے سوچ لیا

0
108