پیغامِ وصلِ یار مرے گھر میں آگیا
دیکھو سفید بال مرے سر میں آگیا
جھک جائیگا فلک بخدا تیرے سامنے
پرواز کا ہنر جو ترے پر میں آگیا
حاسد جلیگا موت تلک سوچ سوچ کر
کیسے کوئی بھی میرے برابر میں آگیا
خود کو بچائے رکھنے کی اب فکر کیجئے
اپنا جہاز دست ستمگر میں آگیا
اللہ کا کرم ہے غزل لکھ رہا ہوں میں
اُردو کا عشق میرے مقدر میں آگیا
دل یوں دھڑک رہا ہے اسے دیکھنے کے بعد
طوفان کوئی جیسے سمندر میں آگیا
طیب یہ عشق لیکے چلا مجھ کو کس طرف
لگتا ہے میرا جسم بَوَنڈر میں آگیا

0
64